. user-image
Software Solutions Company

شرارتی بندر

یہ کہانی گاؤں سات فتح کی ہے ،کہتے ہیں کہ گاؤں سات فتح کے ایک بزرگ علامہ اکرام حفیظ نے ایک جنگل میں کچھ عرصے قیام کیا ۔وہاں بزرگ اکرام حفیظ کی دوستی بہت سے بندروں سے ہو گئی ۔یہ بزرگ کا بہت احترام کرتے تھے اور یہ بندر اپنے وقت کے بھی بہت پابند تھے ۔

ہر بندر کے ذمہ کوئی نہ کوئی ڈیوٹی تھی جس کے ذمے جو کام ہوتا تھا اسے بہت ہی ذمہ داری سے انجام دیتا تھا۔ صبح ہی صبح یہ بندر بزرگ علامہ اکرام حفیظ کے لئے ناشتے میں ناریل، انجیر، کیلا، انگور اور دوسرے میوہ جات لے کر آتے تھے ۔

علامہ اکرام حفیظ بھی اپنے گھر سے اپنی والدہ ماجدہ کے ہاتھوں کی بنی السی کی مٹھائی جو دیسی گھی میں بنی تھی لے کر آتے تھے وہ بندروں کو کھلاتے بندر اور چست وچابند ہو جاتے ۔

علامہ اکرام صاحب ہر وقت اپنے پاس سونف رکھتے جو صبح نہار منہ پھانک لیا کرتے اس سے سارا دن ہاضمہ درست رہتا اور عقل ٹھکانے رہتی ۔

جب یہ بزرگ اکرام حفیظ واپس اپنے گاؤں جانے لگے تو انہوں نے بندروں کو ایک نشانی دی جو کہ زمین پر ایک دائرے کی شکل میں تھی ،اس دائرے پر جب سورج کی کرنیں پڑتی تو وقت کا آسانی سے پتہ چل جاتا تھا۔ بندر، بزرگ علامہ اکرام صاحب سے یہ تحفہ پاکر بہت خوش ہوئے اور جب بزرگ جانے لگے تو بندروں نے بزرگ کو تحفے میں ایک بندر دیا تاکہ ان کا سفر آسانی سے کٹ جائے اور گپ شپ کرتے ہوئے جائیں ۔

یہ بندر بہت شرارتی تھا۔بزرگ بہت خوش ہوئے چلو سفر کے لئے ایک اچھا دوست مل گیا یہ میری سنتا جائے گا اور میرا سفر پر سکون گزرے گا۔
بزرگ اکرام حفیظ کے جنگل میں سے چلے جانے کے بعد بندروں نے بزرگ کی نشانی کی حفاظت کے لئے اس گھڑی کو مٹی سے ڈھانپ دیا تاکہ یہ کبھی خراب نہ ہو ۔

بزرگ شرارتی بندر کو لے کر اپنے گاؤں سات فتح میں آگئے۔گاؤں کے لوگ علامہ صاحب کے ساتھ بندر کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔بزرگ کے دو چیلوں نے جو کہ مظہر اور احمد تھے جو بزرگ کی بہت خدمت کرتے تھے نے بزرگ اور بندر کی پر تکلف دعوت کی ۔

مظہر نے بندر کی شاندار رہائش کا انتظام کیا ۔دوسرے دن بزرگ علامہ اکرام کے دوست بزرگ عبدالسلام ان کے گھر تشریف لائے اُن کو بھی خبر ہو گئی کہ علامہ صاحب کی واپسی ہوگئی ہے بمعہ ایک بندر کے ،عبدالسلام ،بندر سے مل کر بے حد خوش ہوئے اور علامہ اکرام صاحب کے اس دوست کو بہت سراہا کہ اکرام صاحب اب آپ کا دل لگا رہے گا اس جانور کے ساتھ ۔

عبدالسلام نے اپنے گاؤں آنے کی بھی دعوت دی اور کہا کہ مولانا صاحب میں اپنی گاڑی پہ آپ دونوں کو کل لے جاؤں گا ۔
بندر بہت خوش تھا مظہر اور احمد دونوں اس کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے اور کھیلتے رہتے کچھ عرصے بعد بزرگ اکرام صاحب کا انتقال ہو گیا تو بندر کی ذمہ داری مظہر نے سنبھال لی اور اس کی بہت سیوا کرتا اپنے کاندھے پہ بیٹھا کر ساتھ والے گاؤں سولہ مراد لے جاتا اور شام کو واپس آجاتا۔

اس شرارتی بندر کے بہت مزے ہو گئے وہ سارا دن گاؤں میں سیر کرتا اور شام کو آکر مظہر کے ساتھ سوجاتا اتنا پیار اور توجہ پاکر بندر بہت شرارتی ہوتا گیا ۔دن بدن گاؤں میں ایک بزرگ خاتون بی، جمالو بھی رہتی تھیں جو کہ بہت ہی کنجوس تھی ۔

ایک روز بندر آپابی جمالو کے گھر گیا اور آپا سے بولا:”آپ کو کھیر بنانا آتی ہے؟“آپا بولیں:”ہاں آتی ہے“بندر بولا:”ہم سے اچھی کھیر کوئی نہیں بنا سکتا کیونکہ جنگل میں ہم سب بندر مل کر کھیر بناتے ہیں اور کھیر کھلے میدان میں رکھ دیتے ہیں ،کھیر میں تازہ ہوا شا مل ہونے سے اس کا ذائقہ بہت اچھا ہو جاتاہے“۔

آپا آپ بھی کبھی ہمارا طریقہ آزما کر دیکھیں ۔جب کھیر بنائیں تو کچن کی کھڑکی اور دروازے کھلے رکھنا پھر دیکھنا کھیر بہت مزیدار بنے گی“دوسرے دن آپانے ایسا ہی کیا جب کھیر بنائی تو کھڑکی اور دروازے کھلے رکھے۔
کھیر بناتے بناتے آپا کافی تھک گئیں اور ذرا کمر سیدھی کرنے کیلئے لیٹ گئیں ۔

آپا بی جمالو کی کب آنکھ لگ گئی پتہ ہی نہ چلا۔ بندر چپکے سے آیا جی بھر کر کھیر کھائی اور باقی اپنے دوست مظہر کیلئے لے گیا۔جب آپا کی آنکھ کھلی تو ساری کھیر غائب ،آپانے باہر نکل کر شور مچا دیا اس کا شور سن کر آس پاس کے کافی لوگ اکٹھے ہو گئے اور پنچایت بیٹھا دی کہ چور کو پکڑیں ۔

سب لوگ گاؤں کے دو معتبر بزرگ سید اشفاق شاہ اور سید تبسم شاہ کے سامنے آکر بیٹھ گئے ۔بندر بھی وہاں ایک چار پائی پہ اپنے استاد مظہر کے ساتھ بیٹھ گیا اور اخبار پڑھنے لگا سب لوگوں نے اپنا شک بندر پہ ظاہر کیا ۔بندر بولا:آپ لوگوں کو شرم آنی چاہئے ایک شریف بندر پہ الزام لگا رہے ہو ۔

ہمارے جنگل میں تو ایسے نہیں ہوتا اور آپ لوگوں کے پاس کیا ثبوت ہے کہ کھیر میں نے کھائی ہے اور ساتھ ہی مظہر کے کان میں کہا اُستاد آپ نے اب سارا معاملہ سنبھالنا ہے ورنہ آپ کا بھانڈا بھی پھوٹ جائے گا۔ گاؤں کے بزرگ سید تبسم شاہ نے کہا:”ہاں ہاں بھئی لوگو!بولوتمہارے پاس کوئی ثبوت ہے ؟تم میں سے کسی نے بندر کو کھیر کھاتے ہوئے دیکھا ہے؟“سب لوگ خاموش ہو گئے اور ایک ایک کرکے چلے گئے ۔


بندر بڑے مزے سے ایک ٹانگ پر دوسری ٹانگ رکھ کر بیٹھا بزرگ کا حقہ پینے لگا اور بزرگ تبسم شاہ سے بو لا:”آپ کبھی ہمای طرف تشریف لائیں میں اور استاد جی آپ کو گڑ اور سونف والا دودھ پلائیں گے اور عمدہ قسم کا حقہ بھی پلائیں گے ۔

سید اشفاق شاہ نے تو معذرت کر لی لیکن سید تبسم شاہ نے پکا وعدہ کر لیا کہ میں ضرور آؤں گا۔ سید تبسم شاہ بندر کی چکنی چپڑی باتوں میں آگئے اور کہا:”تم فکر مت کرو اور آزادی سے اس گاؤں میں رہو ،یہاں کوئی تمہیں کچھ نہیں کہے گا۔

مظہر اور احمد نے بھی بندر کو تسلی دی اب بندر کے تو مزے لگ گئے اس نے تو لوگوں کا جینا محال کر دیا ایک روز تو وہ گاؤں کے بزرگ سید اشفاق شاہ کا نیا کرتا لے کر بھاگ گیا ۔بزرگ عبدالسلام پوسٹ مین کے بکس میں سے سارے لفافے پھاڑ ڈالے۔

عبدالسلام پوسٹ مین بہت غصے میں آگیا تو اس نے بندر کے استاد مظہر سے شکایت کی اور کہا:”بزرگ اکرام صاحب تو دنیا سے چلے گئے پیچھے گاؤں والوں کے لئے کیا سیاپا چھوڑ گئے ہیں ۔سب لوگ پریشان تھے کہ اس شرارتی بندر کاکیاکیا جائے ۔

احمد رحمانی نے مشورہ دیا کہ بندر کی شادی کر دی جائے سب نے اس سے اتفاق کیا اور بندر کوالٹی میٹم دیا گیا کہ اگر ہمارے گاؤں میں رہنا ہے تو شادی کرنی ہو گی ،نہیں تو دوسری صورت میں تم ہمارا گاؤں چھوڑ دو ہمیں یہاں شرارتی بندر نہیں چاہئے ۔


اب بندر تو بہت پریشان ہو گیا بندر کو ایک ترکیب سوجھی وہ آپا بی جمالو کے پاس آیا س وقت آپا کسی دعوت میں جانے کی تیار کررہی تھی ،بناؤ سنگھار کر رہی تھی ،ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں پاؤں میں چاندی کی پازیب ،کان میں سونے کا جھمکا پہن رہی تھی بندر بولا:”آپا :آپ کے پاس اتنے گہنے ہیں پلیز مجھے کچھ گہنے دیدو میں جنگل جاکر اپنے لئے دلہن لے آؤں گا پھر کسی کو تنگ نہیں کرونگا ۔

آپا پہلے سوچ میں پڑ گئی اور پھر اس کو اس پر ترس آگیا اور کچھ گہنے دے دیئے ۔دوسرے دن بندر استاد مظہر اور احمد رحمانی کے ساتھ جاکر جنگل سے چاند سی دلہن لے آیا،گاؤں والے بہت خوش ہوئے کہ اب بندر کی عقل ٹھکانے آجائے گی اور شرارتیں نہیں کریگا کچھ عرصہ سکون سے گزر گیا اور بندر میاں اپنی بیوی کے ساتھ دعوتیں اڑاتے رہے ۔

ڈاکیا عبدالسلام بھی خوش ہو گیا کہ اب بندر کو اپنی پڑ جائے گی اور یہ کسی کو تنگ نہیں کرے گا ۔ کچھ سال جوں توں گزر گئے لیکن جب بندر کے یہاں چار بچے ہو گئے تو گاؤں سا ت فتح کے لوگ اور بھی پریشان ہو گئے اب بندر اپنی پوری فیملی سمیت لوگوں کانا ک میں دم کیے ہوئے تھی ایک بچہ سکول کی چھت پر اچھل رہا تو دوسرا دودھ والے کے سائیکل لے کر بھاگ رہا ،تیسرا مولوی صاحب کی چھڑی لے کر درخت پر لٹک رہا اور جو سب سے چھوٹا اس نے آپا اور ڈاکیا عبدالسلام کا جینا محال کیا ہوا سب لوگ کہتے کاش مولانا اکرام ہوتے تو وہی اس شرارتی بندر کو جہاں سے لائے تھے چھوڑ کر آتے ۔


آخر سید تبسم شاہ اور عبدالسلام نے لوگوں کی رائے سے فیصلہ کیا کہ بندر اور اس کی فیملی کو گاؤں سے جوتے مار مار کر نکال دیا جائے پھر بندر اپنی فیملی کو لے کر گاؤں سولہ مراد جو کہ پاس ہی تھا ،چلا گیا وہاں استاد مظہر کا دوست عدید سرور رہتا تھا وہ اس کے پاس آگئے ۔

عدید سرور نے ان کو ایک الگ کمرہ دے دیا اور کہا کہ آرام سے رہو ورنہ میرے دادا مجید صاحب نے تم کو ڈنڈے مار مار کر یہاں سے بھگا دینا ہے میں نے صرف اپنے دوست مظہر کی دوستی میں تم کو یہاں رکھا ہے ہماری زمینوں پر بہت سارے امرود، کیلے اور بیر کے درخت ہیں وہاں چلے جایا کرنا مزے سے سب پھل کھانا اور مجھے بھی اوپر سے اتار کر دیا کرنا۔

عدید اور بندر روز باغ کی طرف نکل جاتے اور پھل کھاتے کچھ عرصہ ٹھیک رہا پھر بندر نے اپنی اصلیت دکھانی شروع کر دی یہاں کے لوگ بہت سخت مزاج تھے ایک دن بندر کے بچے نے گاؤں کے بزرگ صدام کی عینک توڑ دی اور خوشی کجلے کی پگ کھینچ کر نیچے گرادی ۔


خوشی کجلے نے غصے سے بندر کو پتھر مارا اور عدید کے پاس شکایت لے کر آیا۔ یہاں کے گاؤں میں ایک شکاری کتی سوزی بھی ان کے ساتھ مل گئی لوگو ں نے بندر اور سوزی کی ٹانگیں توڑ دیں ۔عدید نے بندر اور اس کی فیملی کو دوبارہ گاؤں سات فتح میں بھیج دیا ۔

گاؤں والاں نے جب بندر کی یہ حالت دیکھی اس کی ٹانگ ٹوٹی ہوئی اور دم بھی کٹی ہوئی اس کے بچوں کی بھی حالت بہت خراب تھی لوگوں کو ان پر بہت ترس آیا انہوں نے بندر کو واپس گاؤں میں رکھ لیا بندر نے سب گاؤں والوں سے معافی مانگی اور آئندہ شرارتوں سے تو بہ کرلی ۔

بندر اس کے بچوں کو آپا بی جمالو نے اپنے گھر رکھ لیا اور انہوں نے کان پکڑ لیے کہ آئندہ ہم میں سے کوئی بھی شرارت نہیں کرے گا۔ ہم دوسرے گاؤں سولہ مراد سے بہت کچھ سیکھ کر آئے ہیں با ہم باقی کی زندگی امن اور سکون سے گزاریں گے۔

.

Comments

.

© 2022 All rights are reserved by MCQsMaker.com | Design by KodeWhiz.com
info@kodewhiz.com